وصل کے دن کا اشارہ ہے کہ ڈھل جاؤں گا

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
وصل کے دن کا اشارہ ہے کہ ڈھل جاؤں گا
by رشید لکھنوی

وصل کے دن کا اشارہ ہے کہ ڈھل جاؤں گا
دل یہ کہتا ہے کہ قابو سے نکل جاؤں گا

آتش عشق بڑھی جاتی ہے بیٹھو دم بھر
گرم رفتار رہو گے تو میں جل جاؤں گا

انتظار آپ کا ایسا ہے کہ دم کہتا ہے
نگہ شوق ہوں آنکھوں سے نکل جاؤں گا

دل سے کہتا ہے شب وصل یہی شوق وصال
میں وہ ارمان نہیں ہوں کہ نکل جاؤں گا

سیکڑوں زخم لگیں گے نہ ہٹوں گا قاتل
شجر باغ محبت ہوں میں پھل جاؤں گا

عہد طفلی سے یہ کہتا تھا مزاج جاناں
دیکھ لینا کہ جوانی میں بدل جاؤں گا

طفل اشک آنکھ تک آتا ہے یہ کہتا ہے رشیدؔ
مجھ کو مردم نے جو روکا تو مچل جاؤں گا

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse