وصل کی شب بھی خفا وہ بت مغرور رہا

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
وصل کی شب بھی خفا وہ بت مغرور رہا
by امیر مینائی

وصل کی شب بھی خفا وہ بت مغرور رہا
حوصلہ دل کا جو تھا دل میں بدستور رہا

عمر رفتہ کے تلف ہونے کا آیا تو خیال
لیکن اک دم کی تلافی کا نہ مقدور رہا

جمع کس دن نہ ہوئے موسم گل میں میکش
روز ہنگامہ تہ سایۂ انگور رہا

گردش بخت کہاں سے ہمیں لائی ہے کہاں
منزلوں وادئ غربت سے وطن دور رہا

راست بازی کر اگر ناموری ہے درکار
دار سے خلق میں آوازۂ منصور رہا

وہ تو ہے چرخ چہارم پہ یہ پچ محلے پر
سچ ہے عیسیٰ سے بھی بالا ترا مزدور رہا

فصل گل آئی گئی صحن چمن میں سو بار
اپنے سر میں تھا جو سودا وہ بدستور رہا

جلوۂ برق تجلی نظر آیا نہ کبھی
مدتوں جا کے وہاں میں شجر طور رہا

زلف و رخ دونوں ہیں جانے سے جوانی کے خراب
مشک وہ مشک نہ کافور وہ کافور رہا

غول صحرا نے مرا ساتھ نہ چھوڑا شب بھر
لے کے مشعل کبھی نزدیک کبھی دور رہا

ہم بھی موجود تھے کل محفل جاناں میں امیرؔ
رات کو دیر تلک آپ کا مذکور رہا

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse