وصل کی رات ہے آخر کبھی عریاں ہوں گے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
وصل کی رات ہے آخر کبھی عریاں ہوں گے
by نسیم دہلوی

وصل کی رات ہے آخر کبھی عریاں ہوں گے
میں پشیماں ہوں تو کیا وہ نہ پشیماں ہوں گے

آپ مر جاؤں گا تو آ کہ نہ آ او ظالم
آج وہ دن ہے کہ مجھ پر مرے احساں ہوں گے

غیر کی شکل بنیں گے کبھی خود ان کا شوق
ہم بھی دیکھیں تو کہاں تک نہ وہ پرساں ہوں گے

دل جو روٹھا تو منانے سے کہیں منتا ہے
یہ ستم باعث حسرت تجھے اے جاں ہوں گے

آج بہروپ عدو کا ہے بنایا میں نے
اب تو وہ بھی مرے انداز پہ قرباں ہوں گے

ان کو پہنیں گے مرے دشت جنوں کے کانٹے
یہ وہ دامن ہیں کہ آخر کو گریباں ہوں گے

برہمی دوری جاناں میں انہیں ہوگی نسیمؔ
میرے نالے اثر فکر غزل خواں ہوں گے

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse