وصل کی ان بتوں سے آس نہیں

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
وصل کی ان بتوں سے آس نہیں
by برجموہن دتاتریہ کیفی

وصل کی ان بتوں سے آس نہیں
کہ ٹکے دکشنا کو پاس نہیں

امتحان وفا پہ کرب فراق
پاس ہیں ہائے اور پاس نہیں

نفس کو مار کر ملے جنت
یہ سزا قابل قیاس نہیں

دم میں یہ آنا اور جانا کیا
آپ انساں ہیں کچھ حواس نہیں

خوف ویراں ہوا ہے خانۂ دل
آس کیسی کہ یاں تو یاس نہیں

کعبہ میں جا کے کیا کریں زاہد
واں کی آب و ہوا ہی راس نہیں

شاعری ہے مری کہ سحر حلال
بھلا کہہ دیں تو حق شناس نہیں

پاؤں کس سے مذاق شعر کی داد
آج فیضیؔ و کالیداسؔ نہیں

جام خورشید میں ہے آب حیات
رام رنگی کا یہ گلاس نہیں

کیفیؔ اور جام بادہ سے انکار
تم کو کچھ نام کا بھی پاس نہیں

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse