وصل کی امید بڑھتے بڑھتے تھک کر رہ گئی

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
وصل کی امید بڑھتے بڑھتے تھک کر رہ گئی
by ثاقب لکھنوی

وصل کی امید بڑھتے بڑھتے تھک کر رہ گئی
صبح کاذب اور کیا کرتی چمک کر رہ گئی

دل شب غم کاٹ لایا دم ہوا لیکن ہوا
اک کلی تھی جو سحر ہوتے مہک کر رہ گئی

نا شناس روئے خوش حالی ہے طبع غم نصیب
جب مسرت سامنے آئی جھجک کر رہ گئی

مجھ کو جلنے دے ابھی اے موت کیوں دنیا کہے
آگ کیسی تھی جو سینے میں بھڑک کر رہ گئی

کوئی کیا دیکھے بہار روئے قاتل بعد ذبح
کیوں کھلے وہ آنکھ جو حسرت سے تک کر رہ گئی

میرے دل کے زخم اور ان کی شماتت دیکھیے
ہنس دیئے کشت تمنا جب لہک کر رہ گئی

کیا تمنا تھی یہ بیتابی جسے رکنا پڑا
تنگ تھا صحن قفس بلبل پھڑک کر رہ گئی

لوگ کہتے ہیں کھلا تھا رات بھر باب قبول
کس طرف میری دعا ثاقبؔ بھٹک کر رہ گئی

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse