وصل کی آرزو کئے نہ بنی

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
وصل کی آرزو کئے نہ بنی
by داغ دہلوی

وصل کی آرزو کئے نہ بنی
نہ بنی جستجو کئے نہ بنی

شوق نے ہم کلام کر ہی دیا
ان سے بے گفتگو کئے نہ بنی

جب رکا خون بن گئی دم پر
چاک دل کو رفو کئے نہ بنی

ذلت عشق ہے وہاں عزت
شکوہ آبرو کئے نہ بنی

پاک ہونا ہے رند کو لازم
مے کشی بے وضو کئے نہ بنی

قتل ٹھہرا جو شیوۂ معشوق
ہمیں دل کو لہو کئے نہ بنی

اس کی تصویر سے بھی تھا یہ خوف
داغؔ کو گفتگو کئے نہ بنی

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse