وصل کا عیش کہاں پر غم ہجراں تو ہے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
وصل کا عیش کہاں پر غم ہجراں تو ہے
by میر حسن دہلوی

وصل کا عیش کہاں پر غم ہجراں تو ہے
لب خنداں تو نہیں دیدۂ گریاں تو ہے

آرزو اور تو کچھ ہم کو نہیں دنیا میں
ہاں مگر ایک ترے ملنے کا ارماں تو ہے

حال کیا پوچھے ہے حیرت کدۂ دہر کا دیکھ
آئنہ یاں کا ہر اک دیدۂ حیراں تو ہے

دام سے خط کے چھٹا دل تو نہیں خاطر جمع
قید کرنے کو ابھی زلف پریشاں تو ہے

لے چلا دل کو جو وہ شوخ تو ہمدم نہ بلا
آپھی آوے گا وہ ہم پاس ابھی جاں تو ہے

گو نہ ہو عیش کا اسباب میسر تو نہ ہو
واسطے دل کے غم و درد کا ساماں تو ہے

ایک ہی دم میں کیا سر کو جدا خوب کیا
تیغ کا تیری یہ سر پر مرے احساں تو ہے

گو ہوئے جیب کے ٹکڑے تو نہیں غم ہم کو
چاک کرنے کو ہمارا ابھی داماں تو ہے

جو پڑے عشق کی آفت میں وہی جانے حسنؔ
خلق کے کہنے میں یوں عاشقی آساں تو ہے

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse