وصل کا اس کے دل زار تمنائی ہے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
وصل کا اس کے دل زار تمنائی ہے
by الطاف حسین حالی

وصل کا اس کے دل زار تمنائی ہے
نہ ملاقات ہے جس سے نہ شناسائی ہے

قطع امید نے دل کر دیے یکسو صد شکر
شکل مدت میں یہ اللہ نے دکھلائی ہے

قوت دست خدائی ہے شکیبائی میں
وقت جب آ کے پڑا ہے یہی کام آئی ہے

ڈر نہیں غیر کا جو کچھ ہے سو اپنا ڈر ہے
ہم نے جب کھائی ہے اپنے ہی سے زک کھائی ہے

نشہ میں چور نہ ہوں جھانجھ میں مخمور نہ ہوں
پند یہ پیر خرابات نے فرمائی ہے

نظر آتی نہیں اب دل میں تمنا کوئی
بعد مدت کے تمنا مری بر آئی ہے

بات سچی کہی اور انگلیاں اٹھیں سب کی
سچ میں حالیؔ کوئی رسوائی سی رسوائی ہے

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse