وصل میں وہ چھیڑنے کا حوصلہ جاتا رہا

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
وصل میں وہ چھیڑنے کا حوصلہ جاتا رہا
by جلیل مانکپوری

وصل میں وہ چھیڑنے کا حوصلہ جاتا رہا
تم گلے سے کیا ملے سارا گلہ جاتا رہا

یار تک پہنچا دیا بیتابی دل نے ہمیں
اک تڑپ میں منزلوں کا فاصلہ جاتا رہا

ایک تو آنکھیں دکھائیں پھر یہ شوخی سے کہا
کہیے اب تو کم نگاہی کا گلہ جاتا رہا

روز جاتے تھے خط اپنے روز آتے تھے پیام
ایک مدت ہو گئی وہ سلسلہ جاتا رہا

رو رہے تھے دل کو ہم یاں ہوش بھی جاتے رہے
گمشدہ یوسف کے پیچھے قافلہ جاتا رہا

مڑ کے قاتل نے نہ دیکھا وار پورا ہو گیا
کشتگان نیم بسمل کا گلہ جاتا رہا

وادئ غربت کے ساتھی ہیں ہمیں دل سے عزیز
رو دئیے ہم پھوٹ کر جب آبلہ جاتا رہا

بے خودی میں محو نظارہ تھے ہم کیوں چونک اٹھے
ہائے وہ اپنا مزے کا مشغلہ جاتا رہا

کیا مہذب بن کے پیش یار بیٹھے ہیں جلیلؔ
آج وہ جوش جنوں وہ ولولہ جاتا رہا

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse