وصل میں خوش کبھی دل ہجر میں جلتے دیکھا

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
وصل میں خوش کبھی دل ہجر میں جلتے دیکھا
by عنایت اللہ روشن بدایونی

وصل میں خوش کبھی دل ہجر میں جلتے دیکھا
رنگ نیرنگ جہاں سے یہ بدلتے دیکھا

اف رے اے درد جدائی ترے صدمے شب ہجر
دل کی آنکھوں سے لہو ہو کے نکلتے دیکھا

داغ پر داغ اٹھائے جو لکھا تھا وہ ہوا
سچ ہے قسمت کے نوشتہ کو نہ ٹلتے دیکھا

کچھ تو ہے لطف محبت میں جو ہوتے ہیں فنا
شمع پروانہ کو ہر بزم میں جلتے دیکھا

دیکھ کر چلئے زمانہ کا نشیب اور فراز
کھا کے ٹھوکر جو گرا پھر نہ سنبھلتے دیکھا

کون ہوتا ہے برے وقت میں اے یار شریک
خاک پر چھوڑ کے تن روح کو چلتے دیکھا

داغ تازہ دئے نیرنگ فلک نے اس کو
باغ عالم میں جسے پھولتے پھلتے دیکھا

وقت کی قدر نہ کی لہو و لعب میں جس نے
عمر بھر دست تأسف اسے ملتے دیکھا

ہو مرے سامنے کیا خاک مقابل کو فروغ
کھوٹا سکہ کہیں بازار میں چلتے دیکھا

فرقت طالب و مطلوب غضب ہے روشنؔ
جان کو جسم سے رک رک کے نکلتے دیکھا

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse