وصل میں آپس کی حجت اور ہے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
وصل میں آپس کی حجت اور ہے
by حفیظ جونپوری

وصل میں آپس کی حجت اور ہے
اس شکر رنجی میں لذت اور ہے

کچھ نہیں وعدہ خلافی کا گلہ
آپ سے ہم کو شکایت اور ہے

صبح ہوتے ہی بدل جائے گی آنکھ
رات بھر ان کی عنایت اور ہے

وعظ کہتا ہے جو مے خانے کے پاس
مے کشو واعظ کی نیت اور ہے

سانس اکھڑی ہے ترے بیمار کی
اب کوئی دم کی مصیبت اور ہے

حوریں بھی اچھی ہیں اے زاہد مگر
ان پری زادوں کی صورت اور ہے

علم جوہر ہے حفیظؔ انسان کا
سچ ہے لیکن آدمیت اور ہے

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse