وصل بھی ہوگا حسنؔ تو ٹک تو استقلال کر

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
وصل بھی ہوگا حسنؔ تو ٹک تو استقلال کر
by میر حسن دہلوی

وصل بھی ہوگا حسنؔ تو ٹک تو استقلال کر
حال اپنا ہم سے کہہ کہہ ہم کو مت بے حال کر

سارباں گرم حدی ہے اور جرس ہے نعرہ زن
تو بھی ٹک محمل کے آگے گرد مجنوں حال کر

شمع ساں جتنا سنایا حال رو رو اس کو میں
اٹھ گیا آخر وہ سب باتیں ہنسی میں ٹال کر

مشق جور و ظلم تو کرتا ہی جاتا ہے وہ شوخ
تو بھی دل صبر و تحمل کا اب استعمال کر

عیش و عشرت کو نہ دے تو راہ دل میں اے حسنؔ
درد و غم ہی سے کسی کے اس کو مالا مال کر

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse