وصل آسان ہے کیا مشکل ہے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
وصل آسان ہے کیا مشکل ہے
by حفیظ جونپوری

وصل آسان ہے کیا مشکل ہے
تجھ کو یہ دھیان ہے کیا مشکل ہے

وضع کا دھیان ہے کیا مشکل ہے
دوست نادان ہے کیا مشکل ہے

ہونٹ پر جان ہے کیا مشکل ہے
مشکل آسان ہے کیا مشکل ہے

ہائے دیوانہ بنا کر کہنا
پھر بھی اک شان ہے کیا مشکل ہے

اب جگہ چاہیے وحشت کو مری
تنگ میدان ہے کیا مشکل ہے

جس کو مر مٹ کے مٹایا تھا ابھی
پھر وہی دھیان ہے کیا مشکل ہے

بے بلائے کہیں جانے کے نہیں
آ پڑی آن ہے کیا مشکل ہے

ہم نہ اٹھتے ہیں نہ وہ دیتے ہیں
ہاتھ میں پان ہے کیا مشکل ہے

ہم کو سمجھائے سمجھ ناصح کی
پھر یہ احسان ہے کیا مشکل ہے

میرے بد عہد کو اللہ رکھے
موت آسان ہے کیا مشکل ہے

اس نے رکھا ہے وہ درباں جس سے
جان پہچان ہے کیا مشکل ہے

شیخ کرتا ہے بتوں کی غیبت
پھر مسلمان ہے کیا مشکل ہے

حسن پر خلق مٹی جاتی ہے
جو ہے قربان ہے کیا مشکل ہے

ہجر میں جان نکلتی نہیں آہ
یہ بھی ارمان ہے کیا مشکل ہے

بندگی بت کی خدا کے بندے
کفر ایمان ہے کیا مشکل ہے

چارہ گر کو ہے مرے فکر دوا
درد ہی جان ہے کیا مشکل ہے

بزم میں زہر اگلنے کو عدو
در پہ دربان ہے کیا مشکل ہے

یوں تو پہلے بھی محبت تھی حفیظؔ
اب تو ایمان ہے کیا مشکل ہے

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse