وسعتیں محدود ہیں ادراک انساں کے لئے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
وسعتیں محدود ہیں ادراک انساں کے لئے
by سیماب اکبرآبادی

وسعتیں محدود ہیں ادراک انساں کے لئے
ورنہ ہر ذرہ ہے دنیا چشم عرفاں کے لئے

اے خزاں تو شوق کے سارا چمن برباد کر
چند پھانسیں چھوڑ جا میری رگ جاں کے لئے

دور پہونچیں شہرتیں رفتار سحر آثار کی
کھل گئے رستے ترے حسن خراماں کے لئے

پھول گلشن کے نہیں تو خاک صحرا ہی سہی
کچھ نہ کچھ تو چاہئے تسکین داماں کے لئے

اس لئے دیتا دل تم کو کہ لو اور بھول جاؤ
میں نے اک تصویر دی ہے طاق نسیاں کے لئے

دھجیاں اڑنے کو اے سیمابؔ وسعت چاہئے
ہے کوئی میدان آشوب گریباں کے لئے

This work is now in the public domain in Pakistan because it originates from Pakistan and its term of copyright has expired. According to Pakistani copyright laws, all photographs enter the public domain fifty years after they were published, and all non-photographic works enter the public domain fifty years after the death of the creator.

Public domainPublic domainfalsefalse