وحشی تھے بوئے گل کی طرح اس جہاں میں ہم

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
وحشی تھے بوئے گل کی طرح اس جہاں میں ہم
by حیدر علی آتش

وحشی تھے بوئے گل کی طرح اس جہاں میں ہم
نکلے تو پھر کے آئے نہ اپنے مکاں میں ہم

ساکن ہیں جوش اشک سے آب رواں میں ہم
رہتے ہیں مثل مردم آبی جہاں میں ہم

شیدائے روئے گل نہ تو شیدائے قد سرو
صیاد کے شکار ہیں اس بوستاں میں ہم

نکلی لبوں سے آہ کہ گردوں نشانہ تھا
گویا کہ تیر جوڑے ہوئے تھے کماں میں ہم

آلودۂ گناہ ہے اپنا ریاض بھی
شب کاٹتے ہیں جاگ کے مغ کی دکاں میں ہم

ہمت پس از فنا سبب ذکر خیر ہے
مردوں کا نام سنتے ہیں ہر داستاں میں ہم

ساقی ہے یار ماہ لقا ہے شراب ہے
اب بادشاہ وقت ہیں اپنے مکاں میں ہم

نیرنگ روزگار سے ایمن ہیں شکل سرو
رکھتے ہیں ایک حال بہار و خزاں میں ہم

دنیا و آخرت میں طلب گار ہیں ترے
حاصل تجھے سمجھتے ہیں دونوں جہاں میں ہم

پیدا ہوا ہے اپنے لیے بوریائے فقر
یہ نیستاں ہے شیر ہیں اس نیستاں میں ہم

خواہاں کوئی نہیں تو کچھ اس کا عجب نہیں
جنس گراں بہا ہیں فلک کی دکاں میں ہم

لکھا ہے کس کے خنجر مژگاں کا اس نے وصف
اک زخم دیکھتے ہیں قلم کی زباں میں ہم

کیا حال ہے کسی نے نہ پوچھا ہزار حیف
نالاں رہے جرس کی طرح کارواں میں ہم

آیا ہے یار فاتحہ پڑھنے کو قبر پر
بیدار بخت خفتہ ہے خواب گراں میں ہم

شاگرد طرز خندہ زنی میں ہے گل ترا
استاد عندلیب ہیں سوز و فغاں میں ہم

باغ جہاں کو یاد کریں گے عدم میں کیا
کنج قفس سے تنگ رہے آشیاں میں ہم

اللہ رے بے قرارئ دل ہجر یار میں
گاہے زمیں میں تھے تو گہے آسماں میں ہم

دروازہ بند رکھتے ہیں مثل حباب بحر
قفل درون خانہ ہیں اپنے مکاں میں ہم

آتشؔ سخن کی قدر زمانے سے اٹھ گئی
مقدور ہو تو قفل لگا دیں زباں میں ہم

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse