وحشت دل نے کیا ہے وہ بیاباں پیدا

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
وحشت دل نے کیا ہے وہ بیاباں پیدا
by حیدر علی آتش

وحشت دل نے کیا ہے وہ بیاباں پیدا
سیکڑوں کوس نہیں صورت انساں پیدا

سحر وصل کرے گی شب ہجراں پیدا
صلب کافر ہی سے ہوتا ہے مسلماں پیدا

دل کے آئینے میں کر جوہر پنہاں پیدا
در و دیوار سے ہو صورت جاناں پیدا

خار دامن سے الجھتے ہیں بہار آئی ہے
چاک کرنے کو کیا گل نے گریباں پیدا

نسبت اس دست نگاریں سے نہیں کچھ اس کو
یہ کلائی تو کرے پنجۂ مرجاں پیدا

نشۂ مے میں کھلی دشمنی دوست مجھے
آب انگور نے کی آتش پنہاں پیدا

باغ سنسان نہ کر ان کو پکڑ کر صیاد
بعد مدت ہوئے ہیں مرغ خوش الحاں پیدا

اب قدم سے ہے مرے خانۂ زنجیر آباد
مجھ کو وحشت نے کیا سلسلہ جنباں پیدا

رو کے آنکھوں سے نکالوں میں بخار دل کو
کر چکے ابر مژہ بھی کہیں باراں پیدا

نعرہ زن کنج شہیداں میں ہو بلبل کی طرح
آب آہن نے کیا ہے یہ گلستاں پیدا

نقش ان کا نہ کسی لعل سے لب پر بیٹھا
میرے منہ میں ہوئے تھے کس لیے دنداں پیدا

خوف نا فہمی مردم سے مجھے آتا ہے
گاؤ خر ہونے لگے صورت انساں پیدا

روح کی طرح سے داخل ہو جو دیوانہ ہے
جسم خاکی سمجھ اس کو جو ہو زنداں پیدا

بے حجابوں کا مگر شہر ہے اقلیم عدم
دیکھتا ہوں جسے ہوتا ہے وہ عریاں پیدا

اک گل ایسا نہیں ہووے نہ خزاں جس کی بہار
کون سے وقت ہوا تھا یہ گلستاں پیدا

موجد اس کی ہے سیہ روزی ہماری آتشؔ
ہم نہ ہونے تو نہ ہوتی شب ہجراں پیدا

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse