وحشت دل نے کہیں کا بھی نہ رکھا مجھ کو

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
وحشت دل نے کہیں کا بھی نہ رکھا مجھ کو
by پنڈت جگموہن ناتھ رینا شوق

وحشت دل نے کہیں کا بھی نہ رکھا مجھ کو
دیکھنا ہے ابھی کیا کہتی ہے دنیا مجھ کو

اثر قید تعین سے بھی آزاد ہے دل
کس طرح بند علایق ہو گوارا مجھ کو

لینے بھی دے ابھی موج لب ساحل کے مزے
کیوں ڈبوتی ہے ابھرنے کی تمنا مجھ کو

خواہش دل تھی کہ ملتا کہیں سودائے جنوں
میں نے کیا مانگا تھا قسمت نے دیا کیا مجھ کو

تیری بے پردگیٔ حسن نے آنکھیں کھولیں
تنگ دامانیٔ نظارہ تھی پردا مجھ کو

آخری دور میں مدہوش ہوا تھا لیکن
لغزش پا نے مری خوب سنبھالا مجھ کو

عمر ساری تو کٹی دیر و حرم میں اے شوقؔ
اس پہ سجدہ بھی تو کرنا نہیں آیا مجھ کو

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse