وحشتؔ مبتلا خدا کے لیے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
وحشتؔ مبتلا خدا کے لیے
by وحشت کلکتوی

وحشتؔ مبتلا خدا کے لیے
جان دیتا ہے کیوں وفا کے لیے

آشنا سب ہوئے ہیں بیگانے
ایک بیگانہ آشنا کے لیے

ہم نے عالم سے بے وفائی کی
ایک معشوق بے وفا کے لیے

تھا اسے ذوق عاشق آزاری
خوب میں نے مزے جفا کے لیے

غالب آئی فرامشی اس کی
وعدہ تڑپا کیا وفا کے لیے

یہ بھی تیری گدا نوازی تھی
میں نے بوسے جو نقش پا کے لیے

ذوق نظارہ نے کیا ہے خاک
سرمہ ہوں چشم سرمہ سا کے لیے

جستجو ننگ آرزو نکلی
درد رسوا ہوا دوا کے لیے

بڑھ چلی ہے بہت حیا تیری
مجھ کو رسوا نہ کر خدا کے لیے

ہے خموشی مجھے زباں وحشتؔ
فکر کیا عرض مدعا کے لیے

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse