وجود اب مرا لا فنا ہو گیا
Appearance
وجود اب مرا لا فنا ہو گیا
فنا ہو کے جزو بقا ہو گیا
مقدس ہے عالم میں ذوق فنا
کہ عقدہ دو عالم کا وا ہو گیا
ہوا آشکارا عدم سے وجود
لکھا تھا جو تقدیر کا ہو گیا
نہ ہم تھے نہ ہنگامۂ کائنات
کھلی آنکھ اور خواب سا ہو گیا
حقیقت ہوا رفتہ رفتہ مجاز
رسا طالع نارسا ہو گیا
ترا آستانہ حرم ہو کہ دیر
مساوات شاہ و گدا ہو گیا
نہ کچھ ہوش اپنا نہ ہے کچھ خبر
خدا جانے ساحرؔ کو کیا ہو گیا
This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author. |