وجد اہل کمال ہے کچھ اور
Appearance
وجد اہل کمال ہے کچھ اور
شیخ صاحب کا حال ہے کچھ اور
ہوش جاتا ہے اہل ہوش کا سن
تیرے مستوں کا حال ہے کچھ اور
فخر انساں نہیں ملک ہونا
جی میں اپنے خیال ہے کچھ اور
جس کو کہتے ہیں وصل وصل نہیں
معنیٔ اتصال ہے کچھ اور
غیر حرف نیاز سو بھی کبھو
کہہ سکوں ہوں مجال ہے کچھ اور
رخ خورشید پر کہاں وہ نور
میرے مہ کا جمال ہے کچھ اور
سرو! دعویٔ ہم سری مت کر
وہ قد نونہال ہے کچھ اور
کبک تو خوش خرام ہے لیکن
یار کی میرے چال ہے کچھ اور
دیکھ چل تو بھی حالت بیدارؔ
آج اس کا تو حال ہے کچھ اور
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |