وجد اہل کمال ہے کچھ اور

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
وجد اہل کمال ہے کچھ اور
by میر محمدی بیدار

وجد اہل کمال ہے کچھ اور
شیخ صاحب کا حال ہے کچھ اور

ہوش جاتا ہے اہل ہوش کا سن
تیرے مستوں کا حال ہے کچھ اور

فخر انساں نہیں ملک ہونا
جی میں اپنے خیال ہے کچھ اور

جس کو کہتے ہیں وصل وصل نہیں
معنیٔ اتصال ہے کچھ اور

غیر حرف نیاز سو بھی کبھو
کہہ سکوں ہوں مجال ہے کچھ اور

رخ خورشید پر کہاں وہ نور
میرے مہ کا جمال ہے کچھ اور

سرو! دعویٔ ہم سری مت کر
وہ قد نونہال ہے کچھ اور

کبک تو خوش خرام ہے لیکن
یار کی میرے چال ہے کچھ اور

دیکھ چل تو بھی حالت بیدارؔ
آج اس کا تو حال ہے کچھ اور

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse