واہ کیا عالم عجب ہے انتظار یار کا

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
واہ کیا عالم عجب ہے انتظار یار کا
by راغب بدایونی

واہ کیا عالم عجب ہے انتظار یار کا
نام ہے دیدار حسرت حسرت دیدار کا

سیر ہے جنت کی سیروں سے ترے عاشق کا دل
لے کے جنت کیا کرے بھوکا ترے دیدار کا

ذرۂ دل میں اتر آئے ہزاروں آفتاب
کیا کرشمہ ہے خیال جلوہ گاہ یار کا

بڑھ چلا تھا تیری غفلت سے بھی بار بیکسی
موت نے پوچھا مزاج آ کر ترے بیمار کا

جانتے ہیں اک جھلک میں جان و دل مٹ جائیں گے
لوگ منہ تکتے ہیں تیرے طالب دیدار کا

دھیان میں اس کے دو عالم سے کھنچا بیٹھا ہوں میں
یعنی اک نقشہ کھنچا ہے جذب حسن یار کا

جس کو کہتے ہیں مقدر عاشقان بد نصیب
ہے وہ اک بگڑا ہوا خاکہ مزاج یار کا

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse