واہ کیا خوب مہ لقا دیکھا

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
واہ کیا خوب مہ لقا دیکھا  (1934) 
by ابراہیم عاجز

واہ کیا خوب مہ لقا دیکھا
جلوہ اس کا ہر ایک جا دیکھا

وہ عیاں تھا تو شے نہیں دیکھا
جب ہوئی شے عیاں تو کیا دیکھا

وحدت صرف آئی کثرت میں
پردہ اس پر پڑا ہوا دیکھا

دیر میں ہے نہ وہ حرم میں ہے
لیکن اس کو ہر ایک جا دیکھا

سر کہا جس نے سر گیا اس کا
عارفوں نے یہ آزما دیکھا

بحر کوزے میں کب سماتا ہے
عقل کا تنگ حوصلہ دیکھا

دید ہے جس کی عین بینائی
نہیں دیکھا اسے تو کیا دیکھا

ابن مریم سے بھی تو کچھ نہ ہوا
درد دل ہائے لا دوا دیکھا

بادشاہی میں وہ کہاں حاصل
فقر میں ہم نے جو مزا دیکھا

بلبل خوش نوا کو اے عاجزؔ
گل و گلزار سے جدا دیکھا

This work is in the public domain in the United States because it was first published outside the United States (and not published in the U.S. within 30 days), and it was first published before 1989 without complying with U.S. copyright formalities (renewal and/or copyright notice) and it was in the public domain in its home country on the URAA date (January 1, 1996 for most countries).

Public domainPublic domainfalsefalse