واں تو ملنے کا ارادہ ہی نہیں

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
واں تو ملنے کا ارادہ ہی نہیں
by نظام رامپوری

واں تو ملنے کا ارادہ ہی نہیں
یاں وہ خواہش ہے کہ ہوتا ہی نہیں

یوں ستانے کے تو لائق تھے نہ ہم
آپ نے کچھ ہمیں سمجھا ہی نہیں

جس سے تسکیں ہو مری اے قاصد
ایسی تو بات تو کہتا ہی نہیں

اور بھی ایسی تو باتیں ہیں بہت
گلۂ رنجش بے جا ہی نہیں

لے گئیں نیچی نگاہیں دل کو
آنکھ اٹھا کر ابھی دیکھا ہی نہیں

رشک دشمن سے نصیحت ہوئی آپ
دل وہاں جانے کو ہوتا ہی نہیں

اور جو ظلم ہو منظور مجھے
غیر سے ربط گوارا ہی نہیں

یاں تو یہ منتظر وعدہ ہم
اور واں یاد وہ وعدا ہی نہیں

ربط دشمن سے ہے انکار عبث
ہمیں اس بات کا شکوا ہی نہیں

ہم خدا سے بھی نہیں مانگتے کچھ
یاں کوئی اپنی تمنا ہی نہیں

نہ سہی کوئی برائی نہ سہی
تم سے ملنا مجھے اچھا ہی نہیں

اس کی ہر بات کو سچ سمجھے نظامؔ
اس سا عیار تو پیدا ہی نہیں

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse