واں اگر جائیں تو لے کر جائیں کیا

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
واں اگر جائیں تو لے کر جائیں کیا
by الطاف حسین حالی

واں اگر جائیں تو لے کر جائیں کیا
منہ اسے ہم جا کے یہ دکھلائیں کیا

دل میں ہے باقی وہی حرص گناہ
پھر کیے سے اپنے ہم پچھتائیں کیا

آؤ لیں اس کو ہمیں جا کر منا
اس کی بے پروائیوں پر جائیں کیا

دل کو مسجد سے نہ مندر سے ہے انس
ایسے وحشی کو کہیں بہلائیں کیا

جانتا دنیا کو ہے اک کھیل تو
کھیل قدرت کے تجھے دکھلائیں کیا

عمر کی منزل تو جوں توں کٹ گئی
مرحلے اب دیکھیے پیش آئیں کیا

دل کو سب باتوں کی ہے ناصح خبر
سمجھے سمجھائے کو بس سمجھائیں کیا

مان لیجے شیخ جو دعویٰ کرے
اک بزرگ دیں کو ہم جھٹلائیں کیا

ہو چکے حالیؔ غزل خوانی کے دن
راگنی بے وقت کی اب گائیں کیا

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse