واں اگر جائیں تو لے کر جائیں کیا
Appearance
واں اگر جائیں تو لے کر جائیں کیا
منہ اسے ہم جا کے یہ دکھلائیں کیا
دل میں ہے باقی وہی حرص گناہ
پھر کیے سے اپنے ہم پچھتائیں کیا
آؤ لیں اس کو ہمیں جا کر منا
اس کی بے پروائیوں پر جائیں کیا
دل کو مسجد سے نہ مندر سے ہے انس
ایسے وحشی کو کہیں بہلائیں کیا
جانتا دنیا کو ہے اک کھیل تو
کھیل قدرت کے تجھے دکھلائیں کیا
عمر کی منزل تو جوں توں کٹ گئی
مرحلے اب دیکھیے پیش آئیں کیا
دل کو سب باتوں کی ہے ناصح خبر
سمجھے سمجھائے کو بس سمجھائیں کیا
مان لیجے شیخ جو دعویٰ کرے
اک بزرگ دیں کو ہم جھٹلائیں کیا
ہو چکے حالیؔ غزل خوانی کے دن
راگنی بے وقت کی اب گائیں کیا
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |