واں ارادہ آج اس قاتل کے دل میں اور ہے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
واں ارادہ آج اس قاتل کے دل میں اور ہے
by بہادر شاہ ظفر

واں ارادہ آج اس قاتل کے دل میں اور ہے
اور یہاں کچھ آرزو بسمل کے دل میں اور ہے

وصل کی ٹھہراوے ظالم تو کسی صورت سے آج
ورنہ ٹھہری کچھ ترے مائل کے دل میں اور ہے

ہے ہلال و بدر میں اک نور پر جو روشنی
دل میں ناقص کے ہے وہ کامل کے دل میں اور ہے

پہلے تو ملتا ہے دل داری سے کیا کیا دل ربا
باندھتا منصوبے پھر وہ مل کے دل میں اور ہے

ہے مجھے بعد از سوال بوسہ خواہش وصل کی
یہ تمنا ایک اس سائل کے دل میں اور ہے

گو وہ محفل میں نہ بولا پا گئے چتون سے ہم
آج کچھ اس رونق محفل کے دل میں اور ہے

یوں تو ہے وہ ہی دل عالم کے دل میں اے ظفرؔ
اس کا عالم مرد صاحب دل کے دل میں اور ہے

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse