واقف نہیں ہم کہ کیا ہے بہتر

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
واقف نہیں ہم کہ کیا ہے بہتر
by قائم چاندپوری

واقف نہیں ہم کہ کیا ہے بہتر
جز یہ کہ تری رضا ہے بہتر

دیتا ہے وہی طبیب حاذق
بیمار کو جو دوا ہے بہتر

کس سے کہوں حال بد کہ وہ آپ
کچھ مجھ سے بھی جانتا ہے بہتر

آئینہ ہو یا تو آب لیکن
ہر شکل میں اک صفا ہے بہتر

چرچے سے اگر ہو صحبت غم
شادی سے ہزار جا ہے بہتر

لے نالہ خبر کہ زخم دل کا
پھر کہتے ہیں ہو چلا ہے بہتر

ہر عضو ہے دل فریب تیرا
کہئے کسے کون سا ہے بہتر

جاتی ہے نسیم اس گلی کو
اٹھ سکیے تو قافلہ ہے بہتر

قائمؔ جو کہیں ہیں فارسی یار
اس سے تو یہ ریختہ ہے بہتر

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse