واقف نہیں ہم کہ کیا ہے بہتر
Appearance
واقف نہیں ہم کہ کیا ہے بہتر
جز یہ کہ تری رضا ہے بہتر
دیتا ہے وہی طبیب حاذق
بیمار کو جو دوا ہے بہتر
کس سے کہوں حال بد کہ وہ آپ
کچھ مجھ سے بھی جانتا ہے بہتر
آئینہ ہو یا تو آب لیکن
ہر شکل میں اک صفا ہے بہتر
چرچے سے اگر ہو صحبت غم
شادی سے ہزار جا ہے بہتر
لے نالہ خبر کہ زخم دل کا
پھر کہتے ہیں ہو چلا ہے بہتر
ہر عضو ہے دل فریب تیرا
کہئے کسے کون سا ہے بہتر
جاتی ہے نسیم اس گلی کو
اٹھ سکیے تو قافلہ ہے بہتر
قائمؔ جو کہیں ہیں فارسی یار
اس سے تو یہ ریختہ ہے بہتر
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |