واعظ شہر خدا ہے مجھے معلوم نہ تھا

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
واعظ شہر خدا ہے مجھے معلوم نہ تھا
by عابد علی عابد

واعظ شہر خدا ہے مجھے معلوم نہ تھا
یہی بندے کی خطا ہے مجھے معلوم نہ تھا

غم دوراں کا مداوا نہ ہوا پر نہ ہوا
ہاتھ میں کس کے شفا ہے مجھے معلوم نہ تھا

نغمۂ نے بھی نہ ہو بانگ بط مے بھی نہ ہو
یہ بھی جینے کی ادا ہے مجھے معلوم نہ تھا

میں سمجھتا تھا جسے ہیکل و محراب و کنشت
میرا نقش کف پا ہے مجھے معلوم نہ تھا

اپنے ہی ساز کی آواز پر حیراں تھا میں
زخمۂ ساز نیا ہے مجھے معلوم نہ تھا

جس کی ایما پہ کیا شیخ نے بندوں کو ہلاک
وہی بندوں کا خدا ہے مجھے معلوم نہ تھا

خطبہ ترغیب ہلاکت کا روا ہے اے دوست
شعر کہنے کی سزا ہے مجھے معلوم نہ تھا

شب ہجراں کی درازی سے پریشان نہ تھا
یہ تری زلف رسا ہے مجھے معلوم نہ تھا

وہ مجھے مشورۂ ترک وفا دیتے تھے
یہ محبت کی ادا ہے مجھے معلوم نہ تھا

چہرہ کھولے نظر آتی تھی عروس گل نار
منہ پہ شبنم کی ردا ہے مجھے معلوم نہ تھا

کفر و ایماں کی حدیں کس نے تعین کی تھیں
اس پہ ہنگامہ بپا ہے مجھے معلوم نہ تھا

یہی مار دو زباں میرا لہو چاٹ گیا
رہنما ایک بلا ہے مجھے معلوم نہ تھا

عجب انداز سے تھا کوئی غزل خواں کل رات
عابدؔ شعلہ نوا ہے مجھے معلوم نہ تھا

This work is now in the public domain in Pakistan because it originates from Pakistan and its term of copyright has expired. According to Pakistani copyright laws, all photographs enter the public domain fifty years after they were published, and all non-photographic works enter the public domain fifty years after the death of the creator.

Public domainPublic domainfalsefalse