وار اور پھر وار کس کا آپ کی تلوار کا

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
وار اور پھر وار کس کا آپ کی تلوار کا
by فروغ حیدرآبادی

وار اور پھر وار کس کا آپ کی تلوار کا
اب رفو مشکل سے ہوگا زخم دامن دار کا

خون رونا بے گناہی پر تری تلوار کا
اور ہنس دینا ہمارے زخم دامن دار کا

کس قدر لپکا ہے چشم شوق کو دیدار کا
بن گیا تار نظر آخر تصور یار کا

سیج پر گزری مگر گزری شب وصل اس طرح
چٹکیاں لیتا رہا دھڑکا فراق یار کا

رشک دشمن ہی سے بھڑکی آتش عشق حبیب
پھول کی وقعت بڑھاتا ہے کھٹکنا خار کا

جاؤ اپنی راہ لو قاتل یوں ہی ہوتے ہیں کیا
آج تک تم کو نہ آیا باندھنا تلوار کا

دل ہمارا آپ ہی بڑھ کر نشانہ ہو گیا
تیر چلنے بھی نہ پایا تھا نگاہ یار کا

قتل گہہ میں کام کر جاتا ہے تیرا بانکپن
وار ہو جاتا ہے ہر انداز میں تلوار کا

بڑھ گیا تیری کھچاوٹ کا یہاں تک تو اثر
مجھ سے اب کھنچتا ہے سایہ بھی تری دیوار کا

درد الفت کو چھپایا راز الفت کی طرح
واہ کیا کہنا ہمارے زخم دامن دار کا

پاس تو آؤ تمہیں کیا کھائے جاتا ہے فروغؔ
جان عاشق وہ تو بھوکا ہے فقط دیدار کا

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse