وارد کوہ بیاباں جب میں دیوانہ ہوا

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
وارد کوہ بیاباں جب میں دیوانہ ہوا
by حاتم علی مہر

وارد کوہ بیاباں جب میں دیوانہ ہوا
کوہ کن سے دوستی مجنوں سے یارانہ ہوا

وحشت افزا کس قدر اپنا بھی افسانہ ہوا
میرا قصہ سنتے سنتے قیس دیوانہ ہوا

خار صحرا پر خراماں جب میں دیوانہ ہوا
خون پا سے رشک پائیں باغ ویرانہ ہوا

آنکھ نرگس سے لڑا کر آشنا ہی عندلیب
اے گل تر ایک میں اور سبزہ بیگانہ ہوا

پہنئے کفنی قناعت ہے لباس فقیر میں
کب تبدیل اس کو شکل رخت شاہانہ ہوا

کل وہاں پر ہووے گا گور غریباں کا مقام
آج جس جا پر بنا قصر امیرانہ ہوا

بیعت‌ دست سبو کا پس پیالا پی لیا
تاک کا شجرہ ملا مشرب بھی رندانہ ہوا

شمع کوکل دیکھتے ہی انجمن میں پھٹک گیا
اک جلے تن عاشقوں میں ہم سا پروانہ ہوا

ٹل گئی سر سے بلا اپنا مقدر کھل گیا
موئے سر میں آج دست یار کا شانہ ہوا

اب کہیں کوئی ٹھکانہ ہی نہیں جز کوئے یار
مرتد کعبہ ہوا مردود بت خانہ ہوا

جام کوثر ساقیٔ کوثر بھی دیں گے حشر میں
دست ساقی سے عنایت مجھ کو پیمانہ ہوا

کہر کی قطبیں ہیں اے مہ تری تسبیح میں
کوکب سیارہ ساں روشن ہر اک دانہ ہوا

کون ایسا ہے جو مجھ بیکس کی دل داری کرے
درپئے جاں دوست دشمن اپنا بیگانہ ہوا

خوب ہی پکڑے یہ کافر بھی بلا کی سانپ تھے
پنجہ افسون گر کا زلفوں میں تری شانہ ہوا

تم بتا دو کس جگہ رکھے ہیں دل عشاق کے
ڈھونڈھ لوں گا آپ میرا دل ہی پہچانا ہوا

سوزن‌ عیسیٰ نے اس کے پاؤں کے موزے سیے
پنجۂ خورشید حاضر لے کے دستانہ ہوا

چاہتا ہوں اپنی زنجیریں جنوں کے جوش میں
رزق میرے واسطے زنجیر کا دانہ ہوا

در بہ در مارا پھرا میں جستجوئے یار میں
زاہد کعبہ ہوا رہبان بت خانہ ہوا

نام پر مجھ بادہ کش کے صاد چشم مست ہے
نامۂ اعمال میرا خط پیمانہ ہوا

میرے گھر آیا ہے میرے شعر سننے کو وہ مہرؔ
غیرت بیت الشرف اپنا بھی کاشانہ ہوا

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse