وادی سندھ
Appearance
سندھ کی وادی پہ ہے کالی گھٹا چھائی ہوئی
برقعہ اوڑھے اک دلہن بیٹھی ہے شرمائی ہوئی
منتظر بارش کے ہیں مکی کے اور شالی کے کھیت
تشنگی سے خوشہ کی صورت ہے مرجھائی ہوئی
آج گاندر بل ہوا ہے اس کا منظور نظر
اس کے سر پر کیا گھٹا پھرتی ہے منڈلائی ہوئی
سندھ کے نالے کی آہوں کا دھواں شاید اٹھا
کیسی تاریکی ہے سطح آب پر چھائی ہوئی
قاصد ابر آ رہا ہے لے کے ہاں پیغام فیض
بارگاہ ایزدی میں کس کی شنوائی ہوئی
سوئے مشرق ہے سر کہسار پر بارش کا زور
رحمت باری ہے گویا جوش پر آئی ہوئی
اے ہمایوںؔ فیض بارش سے کھلے ڈل کے کنول
کیوں ترے دل کی کلی ہے آج مرجھائی ہوئی
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |