نے فقہ نہ منطق نے حکمت کا رسالہ ہے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
نے فقہ نہ منطق نے حکمت کا رسالہ ہے
by میر حسن دہلوی

نے فقہ نہ منطق نے حکمت کا رسالہ ہے
اس فن محبت کا نسخہ ہی نرالا ہے

خطرہ ہے مجھے اب تو چپ رہنے سے بھی اپنے
کیا ہے کہ نہ سوزش ہے وہ آہ نہ نالہ ہے

دل ہی نہ کھلے اپنا تو کیجیے کیا ورنہ
سبزہ ہے گلستاں ہے گلزار ہے لالہ ہے

کیوں کر نہ ثمر لاوے شاخ مژہ لخت دل
سو خون جگر سے میں اس تیر کو پالا ہے

ہے دل میں تو وہ لیکن دکھلائی نہیں دیتا
باہر تو اندھیرا ہے اور گھر میں اجالا ہے

تعجیل نہ کر اے دل آنے تو لگا ہے وہ
مل جائے گا بوسہ بھی کیا منہ کا نوالہ ہے

کیفیت مے خانہ بس دیکھ لے اب کیا ہے
ساقی ہے نہ صہبا ہے شیشہ ہے نہ پیالہ ہے

یہ چال اگر ہے تو رہنے کا نہیں اب دل
بے طرح سے اس نے تو کچھ پاؤں نکالا ہے

تو ہوتا تو کیا ہوتا کل نام ترا لیتے
گلشن میں حسنؔ کو میں گرنے سے سنبھالا ہے

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse