نے شکوہ مند دل سے نہ از دست دیدہ ہوں

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
نے شکوہ مند دل سے نہ از دست دیدہ ہوں
by شیخ ظہور الدین حاتم

نے شکوہ مند دل سے نہ از دست دیدہ ہوں
اس بخت نارسا سے اذیت کشیدہ ہوں

کو خندہ کو تبسم و کو فرصت سخن
اس انجمن میں ہیں لب حسرت گزیدہ ہوں

نے کام کا کسی کے نہ مجھ کو کسی سے کام
حیراں ہوں کس لیے میں یہاں آفریدہ ہوں

ہستی کو نے ثبات نہ جینے کا اعتماد
کس کی امید پر کوئی دم آرمیدہ ہوں

میرا تو کام ایک پلک میں تمام ہے
مانند اشک بر سر مژگاں رسیدہ ہوں

گلچیں عبث نگاہ رکھے ہے مری طرف
میں اس چمن میں جوں گل رنگ پریدہ ہوں

سونپوں میں کیوں نہ اپنا گریباں اجل کے ہات
اے عمر زندگی سے میں دامن کشیدہ ہوں

اس واسطے تو قدر مری جانتا نہیں
ہاں ان ترے غلاموں میں بے زر خریدہ ہوں

میرا بھی دل شگفتہ کبھو ہو نسیم وصل
بہتوں کا اس چمن میں میں اب خارویدہ ہوں

پاس ادب سے اس کے قدم تک نہیں مجال
ورنہ نہ پا شکستہ نہ دست بریدہ ہوں

دشمن سے بھی تواضع میں رکھتا نہیں دریغ
تعظیم کو عدو کی میں تیغ خمیدہ ہوں

رونے تلک تو کس کو ہے فرصت یہاں سحاب
طوفاں ہوا بھی جو ٹک اک آب دیدہ ہوں

یاراں دماغ کو جو کروں تم سے اختلاط
اس دشت میں میں وحشیٔ از خود رمیدہ ہوں

کیا پوچھتے ہو درد کو حاتمؔ کے دوستاں
جو کچھ کہ ہوں سو ہوں غرض آفت رسیدہ ہوں


This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.