نیک و بد عشق میں جو ہے مری تقدیر میں ہے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
نیک و بد عشق میں جو ہے مری تقدیر میں ہے
by محمود رامپوری

نیک و بد عشق میں جو ہے مری تقدیر میں ہے
آپ وہ کیجئے جو آپ کی تدبیر میں ہے

وصل کہتے ہیں اسے ربط اسے کہتے ہیں
دیکھ لو تیر جگر میں ہے جگر تیر میں ہے

شور محشر کی تو اک دھوم مچا رکھی ہے
شور یہ ہے جو مرے بالوں کی زنجیر میں ہے

کھل گیا آج مجھے وعدہ فراموشی سے
کہ ترا وصل کسی اور کی تقدیر میں ہے

وہ مرا حال جو پوچھیں تو یہ کہنا قاصد
ابھی جیتا ہے مگر مرنے کی تدبیر میں ہے

کوئی کچھ جرم کرے نام وہ میرا لیں گے
اک زمانے کی برائی مری تقدیر میں ہے

وصف کچھ اس کا بیاں ہو نہیں سکتا محمودؔ
لطف جو داغ کی تقریر میں تحریر میں ہے

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse