نیچی نگہ کی ہم نے تو اس نے منہ کو چھپانا چھوڑ دیا

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
نیچی نگہ کی ہم نے تو اس نے منہ کو چھپانا چھوڑ دیا
by نظیر اکبر آبادی

نیچی نگہ کی ہم نے تو اس نے منہ کو چھپانا چھوڑ دیا
کچھ جو ہوئی پھر اونچی تو رخ سے پردہ اٹھانا چھوڑ دیا

زلف سے جکڑا پہلے تو دل پھر اس کا تماشہ دیکھنے کو
نظروں کا اس پر سحر کیا اور کر کے دوانا چھوڑ دیا

اس نے اٹھایا ہم پہ طمانچہ ہم نے ہٹایا منہ کو جو آہ
شوخ نے ہم کو اس دن سے پھر ناز دکھانا چھوڑ دیا

بیٹھ کے نزدیک اس کے جو اک دن پاؤں کو ہم نے چوم لیا
اس نے ہمیں بے باک سمجھ کر لطف جتانا چھوڑ دیا

پھر جو گئے ہم ملنے کو اس کو دیکھ کے اس نے ہم کو نظیرؔ
یوں تو کہا ہاں آؤ جی لیکن پاس بٹھانا چھوڑ دیا

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse