نیند آتی ہی نہیں دھڑکے کی بس آواز سے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
نیند آتی ہی نہیں دھڑکے کی بس آواز سے
by بھارتیندو ہریش چندر

نیند آتی ہی نہیں دھڑکے کی بس آواز سے
تنگ آیا ہوں میں اس پرسوز دل کے ساز سے

دل پسا جاتا ہے ان کی چال کے انداز سے
ہاتھ میں دامن لیے آتے ہیں وہ کس ناز سے

سیکڑوں مردے جلائے ہو مسیحا ناز سے
موت شرمندہ ہوئی کیا کیا ترے اعجاز سے

باغباں کنج قفس میں مدتوں سے ہوں اسیر
اب کھلے پر بھی تو میں واقف نہیں پرواز سے

قبر میں راحت سے سوئے تھے نہ تھا محشر کا خوف
بعض آئے اے مسیحا ہم ترے اعجاز سے

وائے غفلت بھی نہیں ہوتی کہ دم بھر چین ہو
چونک پڑتا ہوں شکست ہوش کی آواز سے

ناز معشوقانہ سے خالی نہیں ہے کوئی بات
میرے لاشے کو اٹھائے ہیں وہ کس انداز سے

قبر میں سوئے ہیں محشر کا نہیں کھٹکا رساؔ
چونکنے والے ہیں کب ہم صور کی آواز سے


This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.