نیست بے یار مجھ کو ہستی ہے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
نیست بے یار مجھ کو ہستی ہے
by رند لکھنوی

نیست بے یار مجھ کو ہستی ہے
شہر ویراں اجاڑ بستی ہے

ہے جہاں پر مرا قدم بھاری
ہر قدم پر زمین دھنستی ہے

وہ پری ساتھ لے کے سوتا ہوں
حور جس کا پلنگ کستی ہے

ہے حقیقت مجاز سے مطلوب
بت پرستی خدا پرستی ہے

اس کے کشتے ہیں زندۂ جاوید
نیستی ان کی عین ہستی ہے

ایک بت نے دیا نہ ہم کو جواب
بے زبانوں کی ہند بستی ہے

خاکساروں کی ہے یہی معراج
سربلندی ہماری پستی ہے

ہے کئی دن سے گھات میں صیاد
عندلیب آج کل میں پھنستی ہے

اس مرقع کی دیکھ تصویریں
کوئی روتی ہے کوئی ہنستی ہے

منزل عشق کی ہے رہ ہموار
نہ بلندی ہے یاں نہ پستی ہے

حسن دکھلا رہا ہے قدرت حق
بت کو بھی ذوق خود پرستی ہے

جاں بھی دے کر ملے تو مفت سمجھ
ہر طرح جنس حسن سستی ہے

زلف اس کی سیاہ ناگن ہے
مار رکھتی ہے جس کو ڈستی ہے

کھلیں گی آنکھیں نشہ اترے گا
حسن تک اوپری یہ مستی ہے

ایسے جینے پہ رندؔ خاک پڑے
موت اس زندگی پہ ہنستی ہے

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse