نیا کھلا ہے شگوفہ کوئی بہار میں کیا

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
نیا کھلا ہے شگوفہ کوئی بہار میں کیا
by ریاض خیرآبادی

نیا کھلا ہے شگوفہ کوئی بہار میں کیا
گندھا ہوا ہے مرا دل کسی کے ہار میں کیا

اڑانے پھول حسیں آئے ہیں بہار میں کیا
لگی ہے آگ سی یہ آج لالہ زار میں کیا

کسی سے کہنے یہ آئے ہیں وہ سحر ہوتے
تمام رات کٹی میرے انتظار میں کیا

تمہارے خال کا بوسہ نہیں ہے گنتی میں
ذرا سی چیز ہے آئے گی یہ شمار میں کیا

اتار لی سر بازار جس نے رخ سے نقاب
حجاب آئے اسے سو میں کیا ہزار میں کیا

یہ سرمہ چشم عدو کے لئے اٹھا رکھیں
وہ خاک ڈالتے ہیں چشم اعتبار میں کیا

بنائیں گے دل پر داغ جمع کر کے انہیں
چمکتے دیکھے ہیں ذرے مرے غبار میں کیا

یہ میرے دوش سے ہوتے نہیں جدا دم نزع
گڑیں گے میرے فرشتے مرے مزار میں کیا

ہے انتظار کہ مے نوش خم لئے پہنچیں
گھری ہیں کل سے گھٹائیں یہ سبزہ زار میں کیا

جو دیکھے سانپ کے کاٹے کی لہر اسے آئے
بھرا ہے زہر اب ایسا بھی زلف یار میں کیا

شراب سے بھی سوا خوش گوار ہے ہم کو
بتائیں کیا کہ مزا پڑ گیا ادھار میں کیا

کنار شوق میں آ کر حسیں نکل نہ سکے
اثر خدا نے دیا ہے ہمارے پیار میں کیا

ریاضؔ توبہ کرو دن خزاں کے آئے ہیں
تم آئے پینے کو جاتی ہوئی بہار میں کیا

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse