نیا سودا نیا درد نہانی لے کے آیا ہوں

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
نیا سودا نیا درد نہانی لے کے آیا ہوں
by جلیل مانکپوری

نیا سودا نیا درد نہانی لے کے آیا ہوں
نئی اس بزم سے میں زندگانی لے کے آیا ہوں

کچھ اپنی ناتوانی کچھ ترا پاس نزاکت تھا
نگاہوں میں محبت کی کہانی لے کے آیا ہوں

ترے جلوے کے نظارے کو خالی ہاتھ کیا آتا
لٹانے کو بہار نوجوانی لے کے آیا ہوں

لبوں پر مہر خاموشی ہے آنکھیں ڈبڈبائی ہیں
اثر انداز اپنی بے زبانی لے کے آیا ہوں

خدا معلوم قاصد کیا سنائے دل دھڑکتا ہے
یہ کہتا ہے کہ پیغام زبانی لے کے آیا ہوں

مژہ پر گرم گرم آنسو لبوں پر سرد سرد آہیں
فسانہ درد کا غم کی کہانی لے کے آیا ہوں

سرشک خوں دل پر داغ افسردہ تمنائیں
ازل سے یہ متاع زندگانی لے کے آیا ہوں

مقام خضر تھا یا میکدہ تھا کیا کہوں کیا تھا
جہاں سے میں حیات جاودانی لے کے آیا ہوں

جلیلؔ ابر سیہ کیا جھومتا ہے سبزہ زاروں پر
یہ کہتا ہے کہ آب زندگانی لے کے آیا ہوں

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse