نہ ہو آرزو کچھ یہی آرزو ہے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
نہ ہو آرزو کچھ یہی آرزو ہے
by قلق میرٹھی

نہ ہو آرزو کچھ یہی آرزو ہے
فقط میں ہی میں ہوں تو پھر تو ہی تو ہے

نہ یہ ہے نہ وہ ہے نہ میں ہوں نہ تو ہے
ہزاروں تصور اور اک آرزو ہے

نہ امید جھوٹی نہ کچھ یاس سچی
نہیں جو کہیں بھی وہی چار سو ہے

کسے ڈھونڈھتے ہیں یہی ڈھونڈھتے ہیں
یہی جستجو ہے اگر جستجو ہے

جگائے گا کس طرح شور قیامت
خموشی سے ناچار ہر گفتگو ہے

خودی بھی ہماری خدائی سہی
وہی ہم نشیں ہے وہی دو بہ دو ہے

مگر دشنہ تھا سایۂ زلف ساقی
کہ جو زخم ہے ساغر مشک بو ہے

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse