نہ ہم دعا سے اب نہ وفا سے طلب کریں

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
نہ ہم دعا سے اب نہ وفا سے طلب کریں
by میر حسن دہلوی

نہ ہم دعا سے اب نہ وفا سے طلب کریں
عشق بتاں میں صبر خدا سے طلب کریں

دل خاک ہو گیا ہے تری رہ گزار میں
گر جا سکیں وہاں تو صبا سے طلب کریں

آخر خوشی تو عشق سے حاصل نہ کچھ ہوئی
ہم اب غم و الم ہی بلا سے طلب کریں

غمزے نے لے کے دل کو ادا کے کیا سپرد
غمزے سے دل کو لیں کہ ادا سے طلب کریں

دولت جو فقر کی ہے سو ہے اپنے دل کے پاس
وہ چیز یہ نہیں کہ گدا سے طلب کریں

دروازہ گو کھلا ہے اجابت کا پر حسنؔ
ہم کس کس آرزو کو خدا سے طلب کریں

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse