نہ گل نہ سرو میان بہار ہوتا ہے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
نہ گل نہ سرو میان بہار ہوتا ہے
by میر کلو عرش

نہ گل نہ سرو میان بہار ہوتا ہے
ہماری خاک سے پیدا چنار ہوتا ہے

کبھی جو جلوۂ رخسار یار ہوتا ہے
چراغ طور چراغ مزار ہوتا ہے

اٹھا جنازہ جو میرا قضا لگی کہنے
کہ جو پیادہ ہے آخر سوار ہوتا ہے

ملا کے خاک میں تن کو گئی بہشت میں روح
کسی کا کون زمانے میں یار ہوتا ہے

بجا ہے تخت سلیماں پہ بھی جو ماری لات
ہر ایک مرغ یہاں تاجدار ہوتا ہے

نہ اپنے گھر میں مجھے غیر سے ملا اے حور
بہشت میں یہ عذاب فشار ہوتا ہے

عروج عرشؔ جو منظور ہے جلا دل کو
کہ آگ لگتی ہے جب سرد انار ہوتا ہے

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse