نہ کیوں کہ اشک مسلسل ہو رہنما دل کا

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
نہ کیوں کہ اشک مسلسل ہو رہنما دل کا
by شاہ نصیر

نہ کیوں کہ اشک مسلسل ہو رہنما دل کا
طریق عشق میں جاری ہے سلسلہ دل کا

دکھا کے دست حنائی نہ خوں بہا دل کا
کہ اور رنگ سے لوں گا میں خوں بہا دل کا

میں طفل اشک کو مژگاں پہ دیکھ حیراں ہوں
کہ نور دیدہ ہے یا ہے بالکا دل کا

تو آئنے پہ نہ اپنے کر اے سکندر ناز
کہ ہم بھی رکھتے ہیں جام جہاں نما دل کا

بہشت پہنچے ہے زاہد! کب اس کی وسعت کو
عجب روش کا ہے یہ باغ دل کشا دل کا

بجا ہوں سر بہ گریباں کہ اس کے دامن تک
نہ پہنچا آہ کبھی دست نارسا دل کا

ترے خدنگ مژہ سے ہے یک قلم مجروح
نہ پوچھ اے بت بدکیشں! ماجرا دل کا

لگائی کس بت مے نوش نے ہے تاک اس پر
سبو بہ دوش ہے ساقی جو آبلہ دل کا

ہزار بین کہیں کیوں نہ اہل بینائی
کہ صاف بو قلموں ہے یہ آئنا دل کا

بہار تجھ کو دکھائیں گے ہم بھی اے گل رو
کسی روش سے جو غنچہ کبھی کھلا دل کا

ظہور جلوۂ معبود ہے بہر صورت
رکھا ہے نام بجا خانۂ خدا دل کا

رواق چشم میں مت رہ کہ ہے مکان نزول
ترے تو واسطے یہ قصر ہے بنا دل کا

قرار و طاقت و صبر و خرد ہوئے سب گم
تمہاری زلف میں ابتر ہے حال کیا دل کا

کہیں گے ہم یہ سراسر جو کوئی پوچھے گا
سواد ہند میں لوٹا ہے قافلہ دل کا

نہ کیونکہ آہ سے خاطر نشاں ہو اب میری
کہ تیر یہ نہیں کرتا کبھی خطا دل کا

ہمارے داغ سے بھونرے کو کیا بھلا نسبت
کہ وہ رفیق ہے گل کا یہ آشنا دل کا

لگا نہ دل کو تو اپنے کسی سے دیکھ نصیرؔ
برا نہ مان کہ اس میں نہیں بھلا دل کا

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse