نہ کیوں کر نذر دل ہوتا نہ کیوں کر دم مرا جاتا

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
نہ کیوں کر نذر دل ہوتا نہ کیوں کر دم مرا جاتا
by بیخود دہلوی

نہ کیوں کر نذر دل ہوتا نہ کیوں کر دم مرا جاتا
اکیلا بھیجتا اس کو وہ خالی ہاتھ کیا جاتا

جنازہ پر بھی وہ آتے تو منہ کو ڈھانک کر آتے
ہماری جان لے کر بھی نہ انداز حیا جاتا

تمہاری یاد میرا دل یہ دونوں چلتے پرزے ہیں
جو ان میں سے کوئی مٹتا مجھے پہلے مٹا جاتا

تیری چتون کے بل کو ہم نے قاتل تاک رکھا تھا
کدھر مقتل میں بچ کر ہم سے یہ تیر قضا جاتا

مزا جب تھا قیامت تک نہ آتا ہوش بیخودؔ کو
پلائی تھی جو مے ساقی نے اتنی تو پلا جاتا

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse