نہ کیوں تیر نظر گزرے جگر سے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
نہ کیوں تیر نظر گزرے جگر سے
by میر مہدی مجروح

نہ کیوں تیر نظر گزرے جگر سے
کہیں یہ وار رکتے ہیں سپر سے

کسی سے عشق اپنا کیا چھپائیں
محبت ٹپکی پڑتی ہے نظر سے

ہوئی ہے ان کے مشتاقوں سے رہ بند
وہ میرے گھر بھلا آئیں کدھر سے

بھلا دل کا کہاں ملنا کہ ان کی
نظر بھی تو نہیں ملتی نظر سے

مجھے دیوار حیرت نے بنایا
گیا ہے جھانک کر یہ کون در سے

کبھی ٹوٹیں کبھی صیاد کاٹے
غرض اڑنا نہیں ہے بال و پر سے

کہاں کی پیروی جب قصد یہ ہو
کہ آگے بڑھ کے چلیے راہ بر سے

نہ کھولیں گے تو یہ ٹوٹے گا آخر
کہ میں ٹکرا رہا ہوں سر کو در سے

لڑائی کا نہ میں توڑوں گا پھر تار
ذرا سی چھیڑ ہو جائے ادھر سے

اگر جاتی ہے جاں ملتا ہے جاناں
ہمیں تو نفع افزوں ہے ضرر سے

رہا دل میں نہ ہرگز تیر اس کا
ہمیں کھٹکا یہی تھا پیشتر سے

سوائے شر نہ کچھ دیکھا عدو سے
خدا محفوظ رکھے اس بشر سے

ہوا گو پائمال غیر مجروحؔ
نہ سرکا یار کے پر رہ گزر سے

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse