نہ کیوں تیر نظر گزرے جگر سے
نہ کیوں تیر نظر گزرے جگر سے
کہیں یہ وار رکتے ہیں سپر سے
کسی سے عشق اپنا کیا چھپائیں
محبت ٹپکی پڑتی ہے نظر سے
ہوئی ہے ان کے مشتاقوں سے رہ بند
وہ میرے گھر بھلا آئیں کدھر سے
بھلا دل کا کہاں ملنا کہ ان کی
نظر بھی تو نہیں ملتی نظر سے
مجھے دیوار حیرت نے بنایا
گیا ہے جھانک کر یہ کون در سے
کبھی ٹوٹیں کبھی صیاد کاٹے
غرض اڑنا نہیں ہے بال و پر سے
کہاں کی پیروی جب قصد یہ ہو
کہ آگے بڑھ کے چلیے راہ بر سے
نہ کھولیں گے تو یہ ٹوٹے گا آخر
کہ میں ٹکرا رہا ہوں سر کو در سے
لڑائی کا نہ میں توڑوں گا پھر تار
ذرا سی چھیڑ ہو جائے ادھر سے
اگر جاتی ہے جاں ملتا ہے جاناں
ہمیں تو نفع افزوں ہے ضرر سے
رہا دل میں نہ ہرگز تیر اس کا
ہمیں کھٹکا یہی تھا پیشتر سے
سوائے شر نہ کچھ دیکھا عدو سے
خدا محفوظ رکھے اس بشر سے
ہوا گو پائمال غیر مجروحؔ
نہ سرکا یار کے پر رہ گزر سے
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |