نہ کھینچو عاشق تشنہ جگر کے تیر پہلو سے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
نہ کھینچو عاشق تشنہ جگر کے تیر پہلو سے
by محمد ابراہیم ذوق

نہ کھینچو عاشق تشنہ جگر کے تیر پہلو سے
نکالے پر ہے مثل ماہی تصویر پہلو سے

نہ لے اے ناوک افگن دل کو میرے چیر پہلو سے
کہ وہ تو جا چکا ساتھ آہ کے جوں تیر پہلو سے

دل سیپارہ کو لے ٹانک تعویذوں میں ہیکل کے
نہ سرکا یہ حمائل اے بت بے پیر پہلو سے

وہ ہوں بے دست و پا بسمل رسائی جب نہ ہاتھ آئی
کیا تا پائے قاتل از تہ شمشیر پہلو سے

اسیر زلف دیوانے ہیں دیکھ اے پاسباں شب کو
دبا کر بیٹھ ان کے پاؤں کی زنجیر پہلو سے

مصور لیلیٰ و مجنوں کی ناکامی پہ حیراں ہیں
کبھی بیٹھا نہ مل کر پہلوئے تصویر پہلو سے

یہ دل لب تشنہ تیغ یار کا ہے رات بھر کرتا
صدائے العطش جوں نالۂ شب گیر پہلو سے

عجب حسرت کا عالم تھا کہ مجنوں کہتا تھا پیہم
چھٹے پہلو مرے محمل کا یا تقدیر پہلو سے

نہ کہنا استخواں ان کو یہ عالم لاغری کا ہے
کہ ہے دکھلا رہا میرا دل دلگیر پہلو سے

خیال ابروئے جاناں نہیں اب بھولتا اک دم
سپاہی ہے جدا کرتا نہیں شمشیر پہلو سے

تمام اہل سخن بزم سخن میں ذوقؔ حیراں ہیں
ملا جو قافیہ تو نے کیا تحریر پہلو سے

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse