نہ کوئی جلوتی نہ کوئی خلوتی نہ کوئی خاص تھا نہ کوئی عام تھا

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
نہ کوئی جلوتی نہ کوئی خلوتی نہ کوئی خاص تھا نہ کوئی عام تھا
by آرزو لکھنوی

نہ کوئی جلوتی نہ کوئی خلوتی نہ کوئی خاص تھا نہ کوئی عام تھا
نہ کوئی حسن تھا نہ کوئی عشق تھا نہ یہی نام تھا نہ وہی نام تھا

نہ کوئی تھا مکیں نہ کوئی تھا مکاں نہ کوئی تھی زمیں نہ کوئی تھا زماں
نہ کوئی شرق تھا نہ کوئی غرب تھا نہ دم صبح تھا نہ سر شام تھا

ازل لایزل ابد بے بدل جو بنے آج کل افق صد عمل
نہ کہیں تھے خفی نہ کہیں تھے جلی نہ کوئی تھا نشاں نہ کوئی نام تھا

طلب مدعا ہوس ناروا جو کبھی کچھ کہا وہ ہوئے بے مزہ
وہ بجائے جزا سخن ناسترا شجر حرص کا ثمر خام تھا

جو لگے آگ بھی تو نہ ہو ضو فشاں جو بجھے شعلہ بھی تو نہ اٹھے دھواں
نہ گلہ ہجر کا نہ صلہ عشق کا یہ وہی حکم تھا جو مرے نام تھا

جو بجھی شمع دل تو بڑھی روشنی جو پیا زہر غم تو بڑھی زندگی
یہ تو ہی اب بتا ذرا منصفی یہ ترا کام تھا کہ مرا کام تھا

سخن آرزوؔ چمن آرزو ختن آرزو عدن آرزو
یہ در بے صدف قمر با شرف نہ تہ خانہ تھا نہ سر بام تھا

This work is now in the public domain in Pakistan because it originates from Pakistan and its term of copyright has expired. According to Pakistani copyright laws, all photographs enter the public domain fifty years after they were published, and all non-photographic works enter the public domain fifty years after the death of the creator.

Public domainPublic domainfalsefalse