نہ کسی کی آنکھ کا نور ہوں نہ کسی کے دل کا قرار ہوں

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
نہ کسی کی آنکھ کا نور ہوں نہ کسی کے دل کا قرار ہوں
by مضطر خیرآبادی

نہ کسی کی آنکھ کا نور ہوں نہ کسی کے دل کا قرار ہوں
کسی کام میں جو نہ آ سکے میں وہ ایک مشت غبار ہوں

نہ دوائے درد جگر ہوں میں نہ کسی کی میٹھی نظر ہوں میں
نہ ادھر ہوں میں نہ ادھر ہوں میں نہ شکیب ہوں نہ قرار ہوں

مرا وقت مجھ سے بچھڑ گیا مرا رنگ روپ بگڑ گیا
جو خزاں سے باغ اجڑ گیا میں اسی کی فصل بہار ہوں

پئے فاتحہ کوئی آئے کیوں کوئی چار پھول چڑھائے کیوں
کوئی آ کے شمع جلائے کیوں میں وہ بیکسی کا مزار ہوں

نہ میں لاگ ہوں نہ لگاؤ ہوں نہ سہاگ ہوں نہ سبھاؤ ہوں
جو بگڑ گیا وہ بناؤ ہوں جو نہیں رہا وہ سنگار ہوں

میں نہیں ہوں نغمۂ جاں فزا مجھے سن کے کوئی کرے گا کیا
میں بڑے بروگ کی ہوں صدا میں بڑے دکھی کی پکار ہوں

نہ میں مضطرؔ ان کا حبیب ہوں نہ میں مضطرؔ ان کا رقیب ہوں
جو بگڑ گیا وہ نصیب ہوں جو اجڑ گیا وہ دیار ہوں

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse