نہ کرتا ضبط میں نالہ تو پھر ایسا دھواں ہوتا

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
نہ کرتا ضبط میں نالہ تو پھر ایسا دھواں ہوتا
by محمد ابراہیم ذوق

نہ کرتا ضبط میں نالہ تو پھر ایسا دھواں ہوتا
کہ نیچے آسماں کے اور پیدا آسماں ہوتا

کہے ہے مرغ دل اے کاش میں زاغ کماں ہوتا
کہ تا شاخ کماں پر اس کی میرا آشیاں ہوتا

ابھی کیا سرد قاتل یہ شہید تفتہ جاں ہوتا
کوئی دم شمع مردہ میں بھی ہے باقی دھواں ہوتا

نہ ہوتی دل میں کاوش گر کسی کی نوک مژگاں کی
تو کیوں حق میں مرے ہر موئے تن مثل سناں ہوتا

عزا داری میں ہے کس کی یہ چرخ ماتمی جامہ
کہ حبیب چاک کی صورت ہے خط کہکشاں ہوتا

بگولا گر نہ ہوتا وادئ وحشت میں اے مجنوں
تو گنبد ہم سے سرگشتوں کی تربت پر کہاں ہوتا

جو روتا کھول کر دل تنگ نائے دہر میں عاشق
تو جوئے کہکشاں میں بھی فلک پر خوں رواں ہوتا

نہ رکھتا گر نہ رکھتا منہ پہ یہ دانا مریض غم
مگر تیرا میسر بوسۂ خال دہاں ہوتا

ترے خونیں جگر کی خاک پر ہوتا اگر سبزہ
تو مژگاں کی طرح اس سے بھی پیہم خوں رواں ہوتا

رکاوٹ دل کی اس کافر کے وقت ذبح ظاہر ہے
کہ خنجر میری گردن پر ہے رک رک کر رواں ہوتا

نہ کرتا ضبط میں گریہ تو اے ذوقؔ اک گھڑی بھر میں
کٹورے کی طرح گھڑیال کے غرق آسماں ہوتا

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse