نہ کام فکر سے نکلا نہ چل سکی تدبیر

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
نہ کام فکر سے نکلا نہ چل سکی تدبیر
by ہوش بلگرامی

نہ کام فکر سے نکلا نہ چل سکی تدبیر
کسی طرح سے نہ بدلی پھری ہوئی تقدیر

ضمیر دہر سے اندیشۂ خزاں نہ گیا
بہار میں بھی زمانہ ہے درد کی تصویر

تعینات میں الجھی ہوئی ہے فکر حیات
مرے زوال کی تمہید ہے مری تعمیر

اب اعتراف خطا پر نہ اس نگاہ سے دیکھ
کہ ہو نہ جائے کہیں مجھ سے پھر کوئی تقصیر

زبان عام میں کہتے ہیں کائنات جسے
حقیقت غم دل کی ہے مختصر تفسیر

نہیں خدا کی زمیں تنگ اے چمن والو
کریں گے اور کہیں ہم اب آشیاں تعمیر

زمانہ ہوشؔ بدلنے کو ہے نئی کروٹ
بجھے پڑے ہیں بہت دن سے قلب و روح و ضمیر

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse