نہ ڈرے برق سے دل کی ہے کڑی میری آنکھ

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
نہ ڈرے برق سے دل کی ہے کڑی میری آنکھ
by تعشق لکھنوی

نہ ڈرے برق سے دل کی ہے کڑی میری آنکھ
اس کی زنجیر طلائی سے لڑی میری آنکھ

اپنے بیمار کو رکھتی ہے چھپا کر تہ خاک
کہتے ہیں صاحب غیرت ہے بڑی میری آنکھ

خاک میں مل کے عیاں ہوں گل نرگس بن کر
دیکھ لے گر تری پھولوں کی چھڑی میری آنکھ

اس طرح ذبح کیا تیغ نگہ سے مجھ کو
خود وہ کہتے ہیں کہ ظالم ہے بڑی میری آنکھ

دل میں ہے کچھ اثر جوش محبت اب تک
تر ہوئی دیکھ کے ساون کی جھڑی میری آنکھ

حسرت دید میں پتھرا کے بنی سنگ در
نہ ہٹی پھر ترے در پر جو اڑی میری آنکھ

رات بھر اشک کے دانوں پہ گنا کرتی ہے
فرقت یار میں ایک ایک گھڑی میری آنکھ

دل کے ٹکڑے مری پلکوں میں جو دیکھا تو کہا
جانتی تھی انہیں پھولوں کی چھڑی میری آنکھ

رکھ لیے پیش حباب لب جو منہ پر ہاتھ
نظر آئی انہیں دریا میں پڑی میری آنکھ

دوڑ کر مجھ سے گلے مل گئے ملتے ہی نظر
دل کی تقدیر لڑی یا کہ لڑی میری آنکھ

اے شب وصل نہ معلوم یہ کیا کر گئی تو
بند ہوتی نہیں اب کوئی گھڑی میری آنکھ

کہتے ہیں آنکھ لڑاتے ہی تو پتھر بن جائے
ہے ترا دل تو بہت نرم کڑی میری آنکھ

یاد خال رخ جاناں کی مدد سے ناصح
شب فرقت کے ستاروں سے لڑی میری آنکھ

ہو گئی فرط نزاکت سے حیا کی شہرت
آ گیا ان کو پسینہ جو لڑی میری آنکھ

ہے جو اشکوں میں اداہٹ تو نہ گھبرا اے دل
روئی ہے دیکھ کے مسی کی دھڑی میری آنکھ

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse