نہ ڈرے برق سے دل کی ہے کڑی میری آنکھ
نہ ڈرے برق سے دل کی ہے کڑی میری آنکھ
اس کی زنجیر طلائی سے لڑی میری آنکھ
اپنے بیمار کو رکھتی ہے چھپا کر تہ خاک
کہتے ہیں صاحب غیرت ہے بڑی میری آنکھ
خاک میں مل کے عیاں ہوں گل نرگس بن کر
دیکھ لے گر تری پھولوں کی چھڑی میری آنکھ
اس طرح ذبح کیا تیغ نگہ سے مجھ کو
خود وہ کہتے ہیں کہ ظالم ہے بڑی میری آنکھ
دل میں ہے کچھ اثر جوش محبت اب تک
تر ہوئی دیکھ کے ساون کی جھڑی میری آنکھ
حسرت دید میں پتھرا کے بنی سنگ در
نہ ہٹی پھر ترے در پر جو اڑی میری آنکھ
رات بھر اشک کے دانوں پہ گنا کرتی ہے
فرقت یار میں ایک ایک گھڑی میری آنکھ
دل کے ٹکڑے مری پلکوں میں جو دیکھا تو کہا
جانتی تھی انہیں پھولوں کی چھڑی میری آنکھ
رکھ لیے پیش حباب لب جو منہ پر ہاتھ
نظر آئی انہیں دریا میں پڑی میری آنکھ
دوڑ کر مجھ سے گلے مل گئے ملتے ہی نظر
دل کی تقدیر لڑی یا کہ لڑی میری آنکھ
اے شب وصل نہ معلوم یہ کیا کر گئی تو
بند ہوتی نہیں اب کوئی گھڑی میری آنکھ
کہتے ہیں آنکھ لڑاتے ہی تو پتھر بن جائے
ہے ترا دل تو بہت نرم کڑی میری آنکھ
یاد خال رخ جاناں کی مدد سے ناصح
شب فرقت کے ستاروں سے لڑی میری آنکھ
ہو گئی فرط نزاکت سے حیا کی شہرت
آ گیا ان کو پسینہ جو لڑی میری آنکھ
ہے جو اشکوں میں اداہٹ تو نہ گھبرا اے دل
روئی ہے دیکھ کے مسی کی دھڑی میری آنکھ
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |